1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کے آن لائن خطاب کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال

18 دسمبر 2023

پی ٹی آئی کے ایک ورچوئل جلسے کے دوران پاکستان کے کئی شہروں میں سوشل میڈیا تک رسائی متاثر ہونے کی شکایات کی گئیں۔ عمران خان نے حکومت کی جانب سے اپنی جماعت اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی مزمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4aHwq
Pakistan Lahore | Ehemaliger Premierminister Imran Khan im AFP-Interview
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

پاکستان میں زیر حراست سابق وزیر اعظم عمران خان  نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے تیار کردہ ایک آڈیو کلپ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے خطاب کیا ہے۔ پاکستانی سیاست میں اپنی نوعیت کے اس پہلی انٹرنیٹ ریلی کو سرکار کی طرف سے بندش کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اتوار سترہ دسمبر کی شب عمران خان کی آڈیو ان کی ایک تصویر کے پس منظر میں چلائی گئی ۔ یو ٹیوب پر اس خطاب کو 1.4 ملین سے زیادہ مرتبہ دیکھا گیا اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر  پر دسیوں ہزار افراد نے براہ راست اس ورچوئل ریلی میں شرکت کی۔

عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا، '' ہماری پارٹی کو عوامی جلسے کرنے کے اجازت نہیں ہے۔‘‘ پی ٹی آئی کے سربراہ نے اپنے حامیوں پر زور دیا کہ وہ آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں بڑی تعداد میں شرکت کے لیے نکلیں۔ انہوں نےکہا، ''ہمارے لوگوں کو اغوا کیا جا رہا ہے اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔‘‘

Pakistan | Khan-Urteil
دنیا بھر سے عمران خان کے حامیوں نے ان کے ورچوئل خطاب کو سننے کے لیے آن لائن پلیٹ فارمز کا رخ کیا تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

اس ریلی کی لائیو اسٹریمنگ میں رکاوٹوں نے آئندہ انتخابات کے بارے میں شفافیت کے خدشات کو ہوا دی ہے۔ اس دوران ملک بھر میں صارفین انٹرنیٹ کی سست رفتار کی شکایت کر تے رہے، یہ ایک ایسا حربہ ہے جو ٹیلی کام ریگولیٹرز مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز  پر اسٹریمنگ روکنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان کے ٹیلی کام ریگولیٹر (پی ٹی اے) نے کہا کہ ان رکاوٹوں کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ تاہم حکام کا مزید کہنا ہے کہ انٹرنیٹ تک رسائی مجموعی طور پر معمول کے مطابق دکھائی دیتی ہے۔

عمران خان کی تقریر ایک تحریری مسودے سے تیار کی گئی تھی، جس کی انہوں نے جیل سے منظوری دی تھی۔ یہ آن لائن تقریب منعقد کرنے والے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ان کے اجتماعات کو ریاستی کریک ڈاؤن کا سامنا ہے جبکہ اس کے رہنما عمران خان کو میڈیا بلیک آؤٹ کا سامنا ہے۔

  پانچ اگست کو بدعنوانی کے الزام میں مجرم ٹھہرائے جانے اور تین سال کی سزا سنائے جانے کے بعد سے جیل میں قید عمران خان درجنوں عدالتی مقدمات میں الجھے ہوئے ہیں، جن میں سے کچھ مقدمات بند دروازوں کے پیچھے جیل میں چلائے جا رہے ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جیل ٹرائل کسی بھی ملزم کے منصفانہ عدالتی کارروائی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ 71 سالہ سابق کرکٹ سٹار عمران خان گزشتہ سال پارلیمنٹ سے عدم اعتماد کے ووٹ میں برطرف کیے جانے کے بعد سے ایک سیاسی بحران کا شکار ہیں۔

ان کی  پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن مئی میں ان کی مختصر گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے ان کے حامیوں کی طرف سے فوجی تنصیبات پر پر حملوں کے بعد شروع ہوا۔ سن 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کو ان کے مخالفین  فوجی مدد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ پاکستانی فوج کا حکومتیں بنانے اور توڑنے میں بڑا کردار قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی اہم جاسوسی ایجنسی کے سربراہ کی تقرری پر جرنیلوں کے ساتھ مبینہ  اختلافات کے بعد عمران خان  اپنی برطرفی کا ذمہ دار فوج کو ٹھہراتے ہیں، حالانکہ فوج ان  کی حمایت یا انہیں معزول کرنے سے انکار کرتی ہے۔

ش ر ⁄ ع ب (روئٹرز)

بحرانوں کا شکار پاکستان: ذمہ دار کون، فوج یا سیاست دان؟